اسلام آباد: کیریئر کونسلنگ سینٹر، بزنس انکیوبیشن سینٹر، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک، ریڈیو اسٹیشن اور وینچر کیپٹیل کا قیام وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی (تمغہ امتیاز) کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں
اسلام آباد: وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی (تمغہ امتیاز) آئی بی این سے بات کرتے ہو ئے |
اسلام آباد(رپورٹر) وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی (تمغہ امتیاز) نے کہا ہے کہ آئیندہ سمسٹر میں ویکسین کو لازمی قرار دے کر 50 فیصد حاضری کے ساتھ یونیورسٹی کھلی رہے گی، آن لائن کلاسیں بھی جاری رہیں گی۔ ہوسٹلز کھلے رہیں گے بسیں بھی چلتی رہیں گی۔ ویکسین لگوانے کے احکامات حکومت کی جانب سے ہیں جس کے لئے یونیورسٹی کے اندر ہی ویکسینیشن سینٹر قائم کیا گیا ہے جو طالبعلم ویکسین نہیں لگوائے گے انہیں یونیورسٹی میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی وہ آن لائن کلاس اٹینڈ کرے گے۔ کرونا کی پہلی لہر کے دوران اسٹوڈنٹس کو ریگولر کلاسس سے آن لائن پڑھائی پر لانا کافی مشکل تھا اس کے لئے پہلے ہم نے اساتذہ کو تربیت دی اس کے بعد اسٹوڈنٹس کو آن لائن تعلیم پر لائے جہاں انٹر نیٹ کی سہولت موجود نہیں تھی وہاں اداروں سے رابطہ کر کہ سٹوڈنٹس کے لئے انٹر نیٹ کی رسائی کو ممکن بنایا گیا۔ خصوصی انٹرویو کے دوران انھوں نے قائد اعظم یونیورسٹی میں اپنی کارکردگی کا زکر کرتے ہوئے بتایا کہ پونے تین سال کے دوران میں نے کیریئر کونسلنگ سینٹر، بزنس انکیوبیشن سینٹر، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک، ریڈیو اسٹیشن، وینچر کیپٹیل کا قیام عمل میں لایا جبکہ اگلے سال میڈیا ڈیپارٹمنٹ بھی اپنا کام شروع کر دے گا۔
انہوں نے کہا ہمارے فیکلٹی ممبران ریسرچرز، سٹاف، سٹوڈنٹس اور المنائی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کی علم سے محبت، محنت، ذہانت کی بدولت ہماری یونیورسٹی پاکستان کی اول درجے کی یونیورسٹی شمار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ کیو ایس گلوبل ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ2021 میں قائد اعظم یونیورسٹی 378 نمبر پر ہے جبکہ ٹائمز ہائیر ایجوکیشن رینکنگ ایشیا کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی ٹاپ 100 پہ ہے۔ ہمیں ایک اسٹینڈرڈ بجٹ مل رہا ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت کو یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کرنی چاہیے
یونیورسٹیوں کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی مذید حوصلہ افزائی کے لئے رینکنگ کے حساب سے یونیورسٹیوں کے بجٹ میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے معیار کو بڑھا سکیں اور باقی کی یونیورسٹیاں بھی اس دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش کریں۔
انھوں نے کہا پاکستان پہلے ہی تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہے ہمیں شرح خواندگی کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی بی ایس فور ائیر ایک اچھا پروگرام ہے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اس بات پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہ جو ریگولر پروگرام ہیں ان میں بی ایس فور ائیر، ایم ایس اور پی ایچ ڈی ہونی چاہیے لیکن وہ طلباء و طالبات جو پرائیویٹ اور پرانے طریقہ کار کے تحت ایف اے، بی اے یا ایم اے کرنا چاہتے ہوں انھیں اس کی اجازت ہو تاکہ وہ اپنے کام کاروبار کے ساتھ تعلیم کے سلسلے کو بھی جاری رکھ سکیں۔
وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی نے مزید کہا یونیورسٹی کا مقصد صرف تعلیم دینا نہیں سٹوڈنٹس کے اخلاق اور کردار کو بنانابھی ہے ہمارے بچے سماجی اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ زہنی تنائو کا شکار ہیں جس سے ان کے اندر غصہ، زہنی انتشار، انتقام، تشدد، منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے انھیں موبائل فون سوشل میڈیا سے ہٹا کر نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں بلڈ بنک، ڈرامہ، آرٹ، شاعری، جم، میوزک میں مشغول کرنا ناگزیر ہے انھیں مشغول کرنے کے لئے ہم ایسے اقدامات اٹھا رہے ہیں کہ جب تک کوئی سٹوڈنٹ کسی سوسائٹی کا ممبر نہیں ہو گا اسے ڈگری نہیں دی جائےگی۔
انھوں نے کہا قائد اعظم یونیورسٹی اوپن میرٹ یونیورسٹی نہیں ہے اس میں تمام صوبوں کا کوٹہ ہونے کے سبب ملک کے تمام حصوں سے طالبعلم یہاں زیر تعلیم اور ہوسٹلز میں رہائش پذیر ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر کونسلز اور لسانی بنیادوں پر جھگڑے اور تشدد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ باہر کے سٹوڈنٹس اور یونیورسٹی کے سابقہ سٹوڈنٹس لڑائی جھگڑے اور تشدد کے واقعات میں زیادہ ملوث پائے گئے ہیں جن کے خلاف یونیورسٹی سخت ایکشن لے رہی ہے میں سٹوڈنٹس کے جائز مطالبات کے خلاف نہیں ہوں مطالبات اور احتجاج ان کا حق ہے مگر تشدد مار دھاڑ اور بد امنی پھیلانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔
قائد اعظم یونیورسٹی کی انکروچمنٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے بتایا کہ یونیورسٹی کی زمین 17 سو 9 ایکڑ پر محیط ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے مسائل میں اہم مسئلہ قبضہ مافیا کا ہے۔ سی ڈی اے کو تمام رقم ادا کرنے کے باوجود یونیورسٹی کے اپنے قبضے میں ہزار کنال زمین بھی نہیں۔ قبضہ واگزار کروانے کے لئے قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھی اس مسئلے کو اٹھا چکے ہیں وزیر اعظم کے نوٹس لینے کے باوجود مسئلہ جوں کا توں ہے، یونیورسٹی کیمپس کے اندر 600 گھر آباد ہیں۔ یہ یونیورسٹی کی نہیں حکومت کی زمہ داری ہے کہ انھیں متبادل جگہ فراہم کرے، یونیورسٹی کی 50 فیصد چار دیواری بن چکی ہے فنڈز کی کمی کے سبب کام رکا ہوا ہے یونیورسٹی کی زمین پر دیہات آباد ہیں کم از کم 2600 افراد ان دیہاتوں میں رہائش پزیر ہیں چاردیواری کا فائدہ تب ہے جب تمام زمین واگزار کروا کر یونیورسٹی کے حوالے کی جائے انٹری اور ایگزٹ یونیورسٹی کے پاس ہو۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
thank you for your interest. plz let us know how can we help you